آج کا اخبار

تبدیلی کا خواب- - - - - - - - ناصر حسنی

http://www.dadyal.com.pk/old/media/k2/galleries/325/Masood%20Khalid%20Jalsa%20At%20Dadyal%20Photos.jpg پنجاب حکومت ہمہ اقسام کے بازار سجانے میں خاصی مہارت حاصل کرچکی ہے اور اب ریلیاں اور جلسے جلوس کی منڈی لگانے کا تہیہ کرکے میدان میں اترچکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور اتحادی بھی لفظی بمباری کا آغازکرچکے ہیں اور جلسے جلوس کا جواب جلسے جلوس سے دینے کا بہ بانگ دہل اعلان کررہے ہیں ان کا کہناہے کہ وہ فی الحال نصرت بھٹو کی موت پر آنسو بہارہے ہیں سو ریلی کا ریلا نہیں بہاسکتے۔ پی پی کے رہنماوں اورحاجیوں کا گلہ ہے کہ شہباز شریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف غیرپارلیمانی زبان استعمال کرکے نہ صرف صدر مملکت کے عہدے کی توہین کی ہے بلکہ جمہوریت کی دوشیزگی بھی داغ دارکردی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی بھی میاں شہباز شریف پر سخت برہم ہیں ان کا فرمان ہے کہ شہباز شریف اپنی زبان کو لگام دیں ورنہ یہ کام ہمیں کرنا پڑے گا اور تحریک انصاف ان کے نقش قدم پر چل پڑی ہے مگر ۔ ایں سعادت بزوربازو نیست کہ یہاں ناخداوں کی بخشش کام آتی ہے۔ اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ بخشش کا ہما ان کے سرپر بسیراکرچکاہے یا منڈلارہاہے۔ ہمارے دانش ورسیاست داں اور سیاسی مبصربھارتی جمہوریت کے نغمے تو بہت الاپتے ہیں مگرخود اس سے متاثرنہیں ہوتے۔ سونیا گاندھی کے بارے میں بھارت کے کسی شیدے ٹلی نے اپنی ٹلی بچائی تو سارا بھارت چیخ اٹھا تھا تمام دانش ور سیاست دان اور سول سوسائٹی چلا اٹھی تھی کہ یہ ہمارا کلچر نہیں ہم مشرقی لوگ ہیں یہ لب ولہجہ ہماری تہذیب کی تکذیب ہے میاں شہباز شریف کی زبان وبیان پر اعتراض کرنے والے اپنے لب ولہجہ اورالفاظ پر غورفرمائیں تو احساس ہوگا کہ وہ تو شہباز شریف سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔ معتبر معززاور محترم وہی ہوتاہے جو دوسروں کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتا۔ یہاں تو آوے کا آواہی بگڑا ہواہے۔ عمران خان کے جلسے پر عالمی میڈیا نے جس حیرت کا اظہارکیاہے ہمیں اس پر حیرت ہے کیونکہ ایسے سیاسی عجوبے ہمارے ہاں ہوتے ہی رہتے ہیں کہ یہاں دل جتنا اور الیکشن جیتنا ایک دوسرے سے قطعا الگ مظہرہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران عوام کے دل جن کے ساتھ تھے انہیں ووٹ نہیں ملے تھے۔ اصغرخان صاحب نے بھی بڑے بڑے جلسے کیے تھے حیران کن جلوس نکالے تھے مگر بالآخرغبارے کی طرح بیٹھ گئے۔ دراصل غبارے کا حجم ہوا کی بخشش ہوتاہے اور ہوا رخ بدلتی رہتی ہے۔ سو اس امکان کو مسترد نہیں کیاجاسکتا کہ آنے والے انتخابات میں ہوا کا رخ تحریک انصاف کی سمت ہو۔ اگر مسلم لیگ کے خود سررہنما ان کے خول سے باہرنہ آتے تو ان کا دم نکل سکتا ہے یوں بھی لیگ لیک بن کر رہ گئی ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ سوئی کس کی انگلیوں میں چبھی ہوتی ہے۔ ہرسو شوربپا ہے کہ عمران خان نے لاہور جیت لیاہے ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان انتخابات بھی جیت سکیں گے کیونکہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اکثر سیاست دان پارٹی بدلنے کے ماہر ہیں حالات بدلنا ان کے اختیارمیں نہ ان کے منشور کا حصہ ہے۔ عمران خان کے جلسے کے بارے میں مختلف آراسامنے آرہی ہیں مگر اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ جلسہ ریکارڈ سازتھا۔ ایسا عظیم الشان جلسہ تھا جس نے سیاسی پنڈتوں کی چٹیا کاٹ دی ہے ملکی اور غیرملکی سطح پر اسے سرپرائز شوقرار دیاجارہاہے۔ عالمی میڈیا کی رائے کے مطابق عمران خان کی مقبولیت حیران کن ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ عمران خان لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر جہاں تک تبدیلی لانے کا تعلق تو یہ امر محال ہے کیونکہ پاکستان آزادی کے باوجود حق حکمرانی سے محروم ہے جب تک عوام کو حکومت کے انتخابات کا حق نہیں ملتا تبدیلی کا خواب خواب ہی رہے گا ایک ایسا خواب جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اب تو امریکی دانش وربھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ اگر پاکستان کو اچھی حکومت فراہم کردی جائے تو پاکستان اپنے مسائل پر قابو پاسکتاہے گویا ہمارے مصائب وآلام کے اصل ذمہ دار سیاست دان ہیں جو اقتدارحاصل کرنے کے لیے امریکا کے درپرجھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔ اب یہ ایک بات ہے کہ زرداری صاحب کی جھولی زیاد ہ ہی بڑی ہے جس کے باعث عوام کو بڑے مسائل کا سامنا ہے

Posted by Daily Bhakkar Today Bhakkar on 01:04. Filed under . You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0

0 comments for تبدیلی کا خواب- - - - - - - - ناصر حسنی

Leave comment

Recent Entries

Recent Comments

Photo Gallery